کابل،2اگست(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)افغانستان کے شہر ہرات میں واقع شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر ہونے والے خودکش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر انتیس تک پہنچ گئی ہے جبکہ ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہیں۔افغانستان کے شہر ہرات کے مرکزی ہسپتال کے ترجمان کے مطابق منگل یکم اگست کی شام ہونے والے خودکش حملے میں انتیس افراد ہلاک جبکہ چونسٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق جوادیہ مسجد میں ہونے والے اس حملے میں کم از کم دو دہشت گرد ملوث تھے۔
پولیس حکام کے مطابق ایک حملہ آور نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی جبکہ دوسرا حملہ آور ایک خودکار بندوق لے کر مسجد میں داخل ہوا۔ دونوں حملہ آوروں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ہرات شہر افغانستان کے مغرب میں ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے۔
افغان حکومت نے اسے ایک غیر اسلامی حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ افغان حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں ملک کے تمام طبقات سے ایسی کارروائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی گئی ہے۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ افغان طالبان نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ابھی پیر کے روز ہی جہادی تنظیم داعش نے دارالحکومت کابل میں عراقی سفارت خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس حملے میں ایک محافظ، ایک حملہ آور اور ایک خاتون ہلاک ہو گئی تھیں۔حالیہ کچھ عرصے کے دوران داعش افغانستان میں شیعوں کے خلاف متعدد حملے کر چکی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں کہ افغانستان کے صوبہ خراسان میں موجود داعش کے شام اور عراق میں موجود داعش کی اعلیٰ قیادت سے براہ راست رابطے موجود ہیں۔افغان سلامتی کے اداروں نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ داعش ملک کے لیے طالبان سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ حکام کے مطابق وہ شام اور عراق کی طرح افغانستان میں بھی سفاکانہ طرز عمل میں شدت لا سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق داعش نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے کئی حصوں پر بھی اپنی حکمرانی کے خواب دیکھتی ہے لیکن فی الحال اس کے پاس مطلوبہ طاقت موجود نہیں ہے۔